حلب31جولائی(ایس او نیوز ؍آئی این ایس انڈیا)شام اور اس کے اتحادی ملک روس نے دعویٰ کیا ہے کہ محفوظ راہداری کا استعمال کرتے ہوئے درجنوں شہری اور باغی مشرقی حلب کے علاقوں سے نکل گئے ہیں۔ تاہم باغیوں نے ان خبروں کو مسترد کرتے ہوئے انہیں جھوٹ قرار دیا ہے۔شامی فورسزنے باغیوں کے زیر قبضہ حلب کے مشرقی علاقوں کے گرد اپنا عسکری حصار تنگ کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس شہرمیں کم ازکم ڈھائی لاکھ انسان محصور ہیں، جنہیں خوراک اور دیگر بنیادی اشیاء کی اشد ضرورت ہے۔اقوام متحدہ نے شام کے محصور شہر حلب میں امدادی اشیاء کی ترسیل کے لیے اڑتالیس گھنٹوں کی جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ حلب میں کم سے کم دولاکھ پچاس ہزار شہری فاقہ کشی میں مبتلا ہیں ا۔ن علاقوں میں انسانی بحرانی صورتحال کی وجہ سے شام اور روس نے اعلان کیا تھا کہ جو لوگ ان مقامات سے نکلنا چاہتے ہیں، انہیں محفوظ راستہ فراہم کیا جائے گا۔تیس جولائی بروز ہفتہ شامی ٹیلی وژن نے بتایا ہے کہ اس محفوظ رہداری کا استعمال کرتے ہوئے درجنوں افراد باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں سے نکل گئے ہیں۔ ٹیلی وژن پر جاری کردہ فوٹیج میں خواتین اور بچوں کو فوجی نگرانی میں بسوں میں بیٹھ کر صلاح الدین کے علاقے سے نکلتے دکھایا گیا ہے۔شامی میڈیا کے مطابق ان علاقوں سے نکلنے والے لوگوں کا فوج نے استقبال کیا اور انہیں بسوں کے ذریعے عارضی شیلٹر ہاؤسز میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس محفوظ راستے کے باعث متعدد باغیوں نے بھی ہتھیار پھینکتے ہوئے خود کو فوج کے حوالے کر دیا ہے۔ شامی صدر بشار الاسد نے کہا ہے کہ جو باغی تین مہینوں کے اندر اندر ہتھیار پھینک دیں گے انہیں عام معافی دے دی جائے گی۔روسی وزارت دفاع نے بھی کہا ہے کہ 169شہریوں کے حکومت کے زیر انتظام علاقوں تک پہنچنے کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔ اس بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ انسٹھ باغیوں نے اپنے ہتھیار پھینک دیے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ چار مختلف مقامات پر بنائے گئے یہ محفوظ راستے ابھی بھی کھلے ہیں۔
سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے کہا ہے کہ بیس افراد مشرقی علاقوں سے مغربی علاقوں کی طرف گئے ہیں لیکن ان میں کوئی باغی شامل نہیں ہے۔ باغی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ شامی اور روسی حکومتیں جھوٹ بول رہی ہیں کہ انہوں نے کوئی راہداری کھولی ہے یا سیز فائر پر عمل کیا جا رہا ہے۔ ان باغیوں کے مطابق حقیقت یہ ہے کہ شامی فورسز باغی علاقوں میں شیلنگ اور فضائی حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔حلب کے مشرقی علاقوں میں انسانی بحران کی کیفیت کو مد نظر رکھتے ہوئے روس نے وہاں سے شہریوں کے انخلاء کو ممکن بنانے کے لیے محفوظ راستے فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ گزشتہ روز امریکی وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ اگر اس پیشرفت میں روس کی کوئی چالاکی نہیں ہے تو شام کے معاملے پر ماسکو حکومت سے تعاون کیا جا سکتا ہے۔حال ہی میں شامی فورسز نے مقامی ملیشیاگروہوں اور روسی فضائیہ کے ساتھ مل کر حلب کے کئی مقامات پر باغیوں کو پسپا کر دیا ہے۔ان علاقوں میں انسانی بحرانی صورتحال کی وجہ سے شام اور روس نے اعلان کیا تھا کہ جو لوگ ان مقامات سے نکلنا چاہتے ہیں، انہیں محفوظ راستہ فراہم کیا جائے گاامریکا کے علاوہ اقوام متحدہ اور دیگر مغربی ممالک نے روس کی طرف سے اس اعلان کا محتاط انداز میں خیر مقدم کیا تھا۔ گزشتہ روز ہی اقوام متحدہ کے مندوب برائے شام اسٹیفن ڈے مستورا نے کہا تھا کہ ان محفوظ راستوں کی نگرانی اقوام متحدہ کو بھی کرنا چاہیے اور ساتھ ہی اڑتالیس گھنٹے کی سیز فائر بھی ہونا چاہیے تاکہ شہری بغیر کسی خوف کے وہاں سے نکل سکیں۔جولائی سن دو ہزار بارہ سے ہی صوبہ حلب کے زیادہ تر مشرقی علاقوں میں باغیوں کا قبضہ تھا تاہم حال ہی میں شامی فورسز نے مقامی ملیشیا گروہوں اور روسی فضائیہ کے ساتھ مل کر باغیوں کو حلب کے کئی مقامات پر پسپا کر دیا ہے۔ شامی فورس اور باغیوں کے مابین شدید لڑائی کے بعد اس حامی افواج نے اس صوبے کے شمالی علاقے بنی زید کو بھی باغیوں سے آزاد کرا لیا ہے۔
تیونس میں وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب
تیونس31جولائی(ایس او نیوز ؍آئی این ایس انڈیا)تیونس کی پارلیمنٹ نے ہفتے کے روز وزیر اعظم حبیب اسد کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور کر لی، جس کے نتیجے میں ان کی حکومت معزول ہو گئی ہے۔ وزیر اعظم کے خلاف تحریک کی حمایت میں ایک سو اٹھارہ ووٹ پڑے۔ ان کی حکومت کی معزولی کے لیے کم از کم ایک سو نو ووٹ درکار تھے۔ تحریک عدم اعتماد تیونس میں جاری سیاسی عدم استحکام کی تازہ ترین مثال ہے۔معیشت دان اسد کا کہنا ہے کہ وہ نئی حکومت کے قیام کے لیے اپنے آئینی فرائض انجام دیں گے۔